Farman e Khuda (farishton sy) | Allama Iqbal poem in Urdu and English
Farman e Khuda Farishton sy
farman e khuda farishton sy
فرمانِ خدا
(فرشتوں سے )
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو !
کاخِ اُمَر ا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشکِ فرد مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہن تم کو نظر آۓ مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میّسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کَلیِسَا کو کَلیِسَا سے اُٹھا دو
حق را بسجود دے ، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو
میں نا خوش و بیزار ہوں مَر مَر کی سلوں سے
میرے لۓ مٹی کا حرم اور بنا دو
تہزیبِ نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو !
Read Allama Iqbal Poem farishton ka Geet
farman e khuda farishton sy poem by iqbal
Allama Iqbal Poem in urdu
Introduction
تعارف
یاد ہوگا کہ لینن نے بارگاہِ باری تعالٰی میں دنیا کی حالت پیش کرتے ہوۓ پوچھا تھا کہ سرمایہ پرستی کی کشتی کب ڈوبے گی ؟ فرشتوں نے بھی عرض کیا کہ دنیا کی حالت بڑی خراب ہے ۔ اس پر اللّٰہ کی بارگاہ سے فرشتوں کو یہ حکم جاری ہوا۔ جس میں سرمایہ داروں کے ظلم کی بیخ اور مزدوروں کی حق رسی کی گئ ہے ۔
Translation
Read Allama Iqbal poem Khudi ka sir nehan la ilaha illallah
تشریح ۔
اے فرشتو ! اٹھو اور میری دنیا کے غریبوں کو غفلت کی نیند سے جگا دو اور امیر لوگوں نے جو اونچے اونچے محل بنا کر رکھے ہیں ان کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دو۔ ان میں زلزلہ پیدا کر دو ۔
ایمان کی لگن سے غلاموں کا لہو گرما دو۔کہ ان کا خون جوش میں آجاۓ۔
ناچیز چڑیا کو شاہین سے لڑا دو ۔ مفلس ، غریب اور نادار امیروں ، سرمایہ پرستوں اور دولت مندوں سے ٹکرائیں ( کنجشک غریبوں اور محکوموں کا جبکہ شاہیں امیروں کا استعارہ ہے ) ۔
زمانے کا دور بدل گیا ہے ، شینشاہی اور سرمایہ پرستی کا دور ختم ہو گیا ہے ۔ اب جمہوری حکومت کا زمانہ آرہا ہے ۔ تمام معاملات کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہو گی ۔ لٰہزا پرانے دور کے مطلق العنانی کا کوئ جو جو نقش تمہیں نظر آتے ہیں ، ان سب کو مٹا کر رکھ دو.
Allama Iqbal famous poetry
جس کھیت سے کسان کو روزی نہیں ملتی جس سے فائدہ نہیں ہوتا تو اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا ڈالو ۔ گویا فرسودہ زمین داری نظام مٹا دیا جاۓ ۔
مزہبی پیشواؤں خصوصاً پادریوں نے خدا اور اس کے بندوں کے درمیان پردے تان رکھے ہیں ۔ وہ اپنے واسطے کے بغیر کسے کو خدا تک پہنچنے نہیں دیتے ۔
ان مزہبی پیشواؤں کو کلیساؤں ( گرجے ) سے اٹھا دو بلکہ ان کا نام و نشان تک مٹا دو تاکہ بیچ کے پردے بھی اٹھ جائیں خدا اور بندوں کے درمیاں براہِ راست تعلق پیدا ہو جاۓ.
Iqbal poem in urdu
کعبے والوں کے نزدیک مزہب بس یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اللّٰہ کو سجدا کر دیا ۔
بت خانے والوں کے نزدیک مزہب کا یہ ہے کہ بتوں کے اردگرد چکر لگا لیے یہ لوگ سجدہ کرنے اور بتوں کے گرد پھرنے کے منافقانہ طریق سے عوام کو دھوکہ دے کر نفع اٹھانے کے اڈّے بنا رکھے ہیں
یعنی انہوں نے صرف چند نمائشی باتوں کو مزہب سمجھ رکھا ہے ۔اس کی روح و حقیقت کا انہیں زرہ بھر احساس نہیں ۔ ایسا مزہب کس کام کا ؟ بہتر یہی ہے کہ کعبہ اور مندر کے چراغ بجھا دیے جائیں تاکہ لوگ مزہب کی روح و حقیقت کو تو پہچان سکیں ۔
میں سنگ مر مر سے بنی ہوئ ایسی خوش نما و عالی شان عبادت گاہوں سے ناراض اور بیزار ہو چکا ہوں ۔ مجھے تو ایک ایسا کعبہ چاہیے
جو عوام میں سچے دینی جزبات پیدا کر دے بے شک وہ کعبہ مٹی ہی کا بنا ہو ا ہو ۔ مقصود حقیقی معنویت ہے نہ کہ ظاہر داری ۔
Read Allama Iqbal poem on ishq
poem from baal e jibreel
یہ جو نئ تہزیب ہے یہ شیشہ بنانے والوں کا کارخانہ ہے یعنی ہلکی سی ضرب بھی پڑے گی تو چور چور ہو جاۓ گا ۔ اسے تباہ کر دینا ہی ضروری ہے اور تباہ کر
دینے کی کیا صورت ہے ؟ یہ کہ مشرق کے شاعر کو دیوانگی کے طور طریقے سکھا دو ۔ یعنی وہ ایسا پیغام دے جو لوگوں میں جنون کی ایک ایسی کیفیت پیدا کردے اور وہ اس کارخانے کو ریزہ ریزہ کر ڈالیں ۔
Read Allama Iqbal poem Jugnu
read More detail About Allama Iqbal famous book Bal e jibreel